مہر نیوز کے مطابق، ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری کنی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کے نام ایک خط میں اسرائیلی جارحیت کی روک تھام لئے دباو ڈالنے کا مطالبہ کیا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ کے نام اعلیٰ ایرانی سفارتکار کے خط کا متن درج ذیل ہے:
عالی جناب
غزہ کی پٹی پر قابض اسرائیلی رجیم کے نسل پرستانہ حملوں سے متعلق اسلامی جمہوریہ ایران کے سابقہ خطوط کے مطابق، جس میں 19 جنوری 2024 کا خط بھی شامل ہے، میں ایک بار پھر ضروری سمجھتا ہوں کہ اسرائیلی رجیم کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاری قتل عام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اہم کردار اور ناگزیر ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی جائے۔
وسیع پیمانے پر عالمی غم و غصے اور بین الاقوامی عدالت انصاف کے مورخہ 24 مئی 2024 کے حکم نامے کے باوجود قابض رجیم "نسل کشی سے باز نہیں آرہی لہذا فلسطینیوں کے قتل عام کی روک تھام اور ویانا کنونشن کے تحت رفح میں عام شہریوں کو درپیش سنگین صورت حال کے پیش نظر قابض رجیم پر دباو بڑھایا جائے:
(1) اسرائیل فوری طور پر اپنی فوجی کارروائی کو روکے اور رفح میں کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کرے جس سے پناہ گزینوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوجائے۔
(2) فوری طور پر درکار بنیادی خدمات اور انسانی امداد کی وسیع پیمانے پر بلا روک ٹوک فراہمی کے لئے رفح کراسنگ کو کھولا جائے۔
(3) نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے مجاز اداروں کی طرف سے کسی بھی تحقیقاتی کمیشن، فیکٹ فائنڈنگ مشن یا دیگر تحقیقاتی ادارے کی غزہ کی پٹی تک بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کریں، آئی سی جے کے فیصلے کے چند دن بعد ہی رفح کے پناہ گزین کیمپ پر فضائی حملے میں کم از کم 45 افراد کی شہادت پر بین الاقوامی برادری نے فلسطینی قوم کی اسرائیلی رجیم کے ہاتھوں نسل کشی کے انتہائی افسوسناک مناظر دیکھے ہیں۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران تقریباً 10 لاکھ بے گناہ شہری رفح کی طرف ہجرت کرچکے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ اسرائیلی رجیم کے فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں سے خود کو بچانے کے لئے محفوظ جگہوں کی تلاش میں سرگرداں مہاجرین نامناسب حالاتِ زندگی میں زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جہاں غاصب رجیم کی نسل کشی کی کارروائیوں کی وجہ سے انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔
عالی جناب
میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ عالمی برادری قانونی اور اخلاقی طور پر پابند ہے کہ وہ فلسطینی قوم کی نسل کشی کو روکے اور ان کی تمام انسانی ضروریات کی فوری اور بلا روک ٹوک تکمیل کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔
اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے تمام رکن ممالک پر زور دے کہ وہ جارح رجیم کے ساتھ تعاون سے باز رہیں۔ دریں اثنا، سلامتی کونسل کو اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔
عالمی برادری مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاری مظالم کو فوری طور پر بند کرنے اور بے گناہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔
اس تناظر میں، بہت زیادہ توقع کی جاتی ہے کہ آپ، اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے تعاون سے تمام دستیاب ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ اسے بین الاقوامی عدالت انصاف کے فلسطینی عوام کی نسل کشی بارے عارضی اقدام کی پاسداری کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
مزید برآں، میں نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے لئے 1948 کے کنونشن کی ذمہ داری پر زور دینا چاہوں گا؛ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 24 کے مطابق بین الاقوامی امن اور سلامتی کی بحالی کے لیے سلامتی کونسل کی بنیادی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اس کے آرٹیکل 99 کے تحت آپ کی ذمہ داری کو یاد کرتے ہوئے، میں اس بات کی نشاندہی کرتا ہوں کہ نسل کشی کو روکنے کی ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ تمام ممالک اسرائیلی رجیم کو نسل کشی کے خاتمے پر مجبور کریں۔
تمام ممالک قانونی طور پر نسل کشی کو روکنے کے لئے نسل کشی کی مرتکب رجیم کو کسی بھی قسم کی امداد فراہمی روکنے کے ذمہ دار ہیں۔
یہ بھی واضح ہے کہ سلامتی کونسل کو غزہ سمیت رفح میں اسرائیلی حملوں کی روک تھام کے لیے ایک مستقل رکن کی ویٹو پاور کے ذریعے مناسب اقدامات کرنے سے روکنا اسے مفلوج کرنے کی کوشش ہے۔
سلامتی کونسل اور خاص طور پر اس رکن ملک پر جس نے کونسل کو اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کی روک تھام کے لئے قراردادوں کو منظور کرنے سے روکا ہے۔یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس رجیم کو مزید نسل کشی سے روکے۔
اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری اسرائیلی جارح حکومت کو عالمی عدالت انصاف کے 26 جنوری 2024، 28 مارچ 2024 اور 24 مئی 2024 کے آرڈرز میں بتائے گئے عارضی اقدامات کو مکمل، فوری اور مؤثر طریقے سے نافذ کرنے پر زور دینے اور اس رجیم کو مجبور کرنے میں اتحاد کا مظاہرہ کرے۔
ہمیں یقین ہے کہ آپ کی قیادت میں انصاف کے لیے جاری عالمی مطالبات پورے ہوں گے۔
براہِ کرم، میری نہایت غور و فکر کی حامل تجاویز کو قبول کرتے ہوئے اس پر ہمدردانہ غور کریں۔
علی باقری کنی۔
قائم مقام وزیر خارجہ ایران
آپ کا تبصرہ